محمد افتخار شفیع … ڈاکٹر الف د نسیم رحمۃ اللہ علیہ ( ہمارے کالج کے پہلے صدرِ شعبہ اردو)

ڈاکٹر الف   ۔ د ۔ نسیم رحمتہ اللہ علیہ
(ہمارے کالج کے پہلے صدرِ شعبہ اردو)

ڈاکٹر الف  ۔ د ۔ نسیم کا وطن مالوف ہوشیارپور تھا۔آپ کا تعلق ککے زئی قبیلے سے تھا۔ پاکستان بننے کے بعد لاہور آئے،پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج ساہیوال (تب منٹگمری) میں اردو کے شعبے میں لیکچرار مقرر ہوئے۔ یہیں رہتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی، ڈاکٹر الف ۔ د ۔نسیم نے ساہیوال میں نوجوانوں کی ایک پوری نسل کی تربیت کی۔ آپ کی شخصیت کی بہت ساری جہتیں ہیں۔آپ ایک  بالغ نظر محقق،ذہین نقاد اور معروف اقبال شناس تھے۔اقبال کی تفہیم کے لئے ڈاکٹر صاحب مرحوم کی ’’شرح کلیاتِ اقبال ‘‘ نہایت اہمیت کی حامل ہے ۔’’اقبال اور وحدت الوجود‘‘ ، ’’اہل چشت کی ادبی خدمات‘‘ اور ’’میرو سودا کا دبستان دلی‘‘ وغیرہ ان کی اہم کتابیں ہیں۔ بے شمار کتابوں کے مسودے ابھی تک اشاعت کے منتظر ہیں۔ڈاکٹر الف . د. نسیم کا حالی روڈ (ساہیوال) پر واقعہ دولت کدہ ’’مرشد خانے‘‘ کا درجہ رکھتا تھا۔ آپ ایک سچے عاشق رسولﷺ تھے۔ اردو غزل کے کلاسیکی مزاج کے رسیا ڈاکٹر الف ۔ د ۔نسیم کی غزل کا سلسلہ دردؔ،مصحفی،آتش اور امیر مینائی کی روایت سے جا ملتا ہے ۔ آپ ایک خوب صورت ،متوازن اور خوش گفتار شخص تھے۔ساہیوال کے علمی و ادبی حلقوں میں ڈاکٹر الف . د .نسیم مرحوم کو بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ آپ نے شریعت سے طریقت کا سفر بڑی سرعت کے ساتھ طے کیا۔ آپ کی بزم میں دانش جو،طلبہ و اساتذہ ،شعرا و ادبا،اور نعت خواں حضرات ہر وقت موجود رہتے تھے۔ دلوں سے دلوں کی باتیں ہوتی تھیں اور متوازن زندگی گزارنے کے اسرار و رموز بڑی خوب صورتی سے سکھائے جاتے تھے۔ آپ کا انتقال لاہور میں ہوا۔میانی صاحب قبرستان میں تدفین ہوئی۔

جلوۂ یار عیاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
ہر جگہ اُس کا نشاں تھا مجھے معلوم نہ تھا

کعبہ و دیر میں بیکار کیا اُس کو تلاش
وہ مری روح و رواں تھا مجھے معلوم نہ تھا

کہیں ناقوس کے سینے میں تھا فریاد کُناں
کہیں آواز اذاں تھا مجھے معلوم نہ تھا

کہیں توحید کے پردے میں تھا بے نام و نشاں
کہیں تصویرِ  بُتاں تھا مجھے معلوم نہ تھا

تھا کہیں سلسلہ کوہ و جبل میں ساکت
کہیں دریائے رواں تھا مجھے معلوم نہ تھا

بزم  میں ساقی گلفام کی وہ تھا مژگاں
رزم میں نوک سناں تھا مجھے معلوم نہ تھا

خندۂ گل تھا کہیں اور کہیں موجِ نسیم
کہیں بلبل کی فغاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
٭
تمام عمر ملا پھر نہ اپنے گھر کا پتا
بتا گیا تھا کوئی مجھ کو اپنے در کا پتا

جوابِ خط کی تمنا رہی ہے اب کس کو
کوئی بتائے مجھے میرے نامہ بر کا پتا

خزاں کا دور بھی کتنا مقام عبرت ہے
نہ عندلیب کا ہے اور نہ برگ تر کا پتا

جہاں کہیں ہے کف پائے یار کی تصویر
وہاں سے لانا تو اے شیخ میرے سر کا پتا

ہوا تھا دل میں جو پہلے ہی وار میں پیوست
ملا نہ پھر کبھی اس ناوکِ  نظر کا پتا

ہوا تھا فصلِ بہاری میں جو اسیرِ قفس
نسیمؔ، لا تو کبھی اس شکستہ پر کا پتا
٭
جو پہنچے گرد کو اس کی خرد کی کیا ہے مجال
مقام ِعشق ہے بیروں زِ حدِّ وہم و خیال

وجودِ بحر پہ موقوف ہے حباب کی زیست
جو تو نہیں تو مری زندگی، عدم کی مثال

مقامِ سدرہ و طوبیٰ جہانِ ذات و صفات
ہے سارا عشق کا حاصل، ہے سب اسی کا مال

کمالِ آدمِ خاکی ہے ذات کا دیدار

مگر نصیب نہیں جز بہ ذوق و مستی و حال
نقوشِ دہر میں بھرتی ہے رنگ ہر لمحہ

مری نگاہِ تماشا برنگِ ذوقِ جمال
خدا سے مانگ، دلِ زندہ، دیدۂ بینا

حذر زِ دانش حاضر کہ ہے خودی کا زوال

درونِ میکدہ اُس کا گذر نہیں لیکن
نسیم راہ نشیں بھی ہے کوئی صاحبِ حال
٭
ہیں جلوۂ محبوب میں خورشید و قمر بند
زلفوں میں اگر شب ہے تو ہے رخ میں سحر بند

گلشن میں ترا طالبِ دیدار ہوا تھا
اس بات پہ گل رہتاہے خاروں میں نظر بند

ہے آمدِ فصلِ گل و لالہ کی بہت دھوم
ظالم مجھے اب کے تو نہ زنجیر میں کر بند

کچھ لطفِ چمن ہم کو بھی لے لینے دے صیّاد
اڑتے ہی نہ کر طاقتِ پرواز کو پر بند

شاید ہے بہاراں میں مے ناب کی تاثیر
غنچوں نے جو مستی میں دیے کھول کمر بند

اے موجِ نسیم سحری، مردہ زمیں سے
شاخوں پہ نکل آئے ہیں کتنوں کے جگر بند

Related posts

Leave a Comment